مونٹیسوری سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ بچوں کی ذہانت ابھارنے میں والدین کا کردار

Read this in: English

جب میں اپنی بیٹی کے کمرے کو سجانے کے طریقے دیکھ رہی تھی، تو مونٹیسوری کا نام میری نظروں سے گزرا۔ سارے کمرے دیکھنے میں تو بہت سادہ لگ رہے تھے، لیکن نظروں کو بہت بھا رہے تھے۔

چونکہ ہم حال ہی میں نئے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوئے تھے، اس لئے میں صرف چند ایک چیزیں لینا چاہتی تھی۔ لیکن یہ چاہتی تھی کہ ان کے ساتھ کھیل کر وہ سیکھے۔

سب سے پہلے یہ بتا دوں کہ میں نے مونٹیسوری کی تعلیم کی باقاعدہ تربیت نہیں لے رکھی۔ میں نے بھی دن رات گوگل کی خاک چھان کر اس بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس کے جواب میں جو اہم باتیں سامنے آئیں ان میں سے کچھ اپنے بچوں پر آزما کر بھی دیکھیں۔ نتیجہ خاطرخواہ نکلا۔

ماں باپ بنتےہی پہلا خیال یہ آتا ہے کہ اپنے بچوں کی ذہنی نشونما اور تربیت بہترین انداز میں کیسے کریں؟ ساتھ ہی ساتھ اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم کچھ غلط نہ کردیں اور جب کئ گھنٹے آن لائن ضائع کر کے کچھ سمجھ نہیں آتا تو اپنا سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے

۔ میں نے دیکھا کہ مونٹیسری سے میرے کئی سوالوں کا خاطر خواہ جواب مل گیا ۔

نہ صرف یہ، بلکہ میں نے سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو ایک دوسرے نظریئے سے دیکھنا بھی سیکھا، جس میں سکھانے والا سیکھنے والے کے ساتھ ساتھ خود بھی سیکھتا ہے۔

کیونکہ یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس لیے اس کے بارے میں مجھے کچھ شکوک و شبہات تھے۔ مگر سائنسی تحقیق کے مطابق اس طریقے سے سیکھنے کے کئی فائدے ہیں، جو کہ آپ کی بقیہ زندگی پر بھی مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔

ایک سائنسی تجزیے میں دو گروہوں میں بچوں کا مطالعہ کیا گیا، جس میں سے ایک گروہ مونٹیسری جانے والے بچوں کا تھا اور دوسرا رسمی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا تھا۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ مونٹیسری کے بچوں کے گروہ کا میتھ اور سائنس میں بہتر رزلٹ تھا ۔ (مزید پڑھنے کے لیئے یہاں کلک کیجئے)

ایک اورتجزیئے میں بچوں کے والدین کی آمدنی اور نسل کے اثرات کو دیکھا گیا، تو پتہ چلا کہ مونٹیسری سے بچے ہر حال میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ والدین چھوٹی عمر میں ان پر توجہ دینا شروع کریں اوران کو سکھانے میں دلچسپی خود لیں۔ (مزید پڑھنے کے لیئےیہاں پر کلککیجئے)

خوبصورت بھی اور کار آمد بھی!

میرے ڈھونڈنے پر بہت سے خوبصورت پنٹرسٹ کے بورڈ میری نظروں سے گزرے، جو کہ میرے ذوق کے مطابق بھی تھے۔ مگر اس پر عمل کرنے سے پہلے میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر مونٹیسری شروع کس طرح ہوا اور اس طریقے میں کیسی حکمت موجود تھی۔

مونٹیسری دراصل تعلیم دینے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ اس کو ڈاکٹر ماریہ مونٹیسوری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جو کہ اٹلی کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں۔

۱۹۰۷ میں جب وہ روم کے غریب اندرون شہر میں کام کر رہی تھیں، تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں غریب بچے پیٹ بھر کھانا کھانے کے باوجود بچے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ چنانچہ ان کا تجسس بیدار ہوا اور انہوں نے مشاہدہ کیا کہ بچوں کے برتاؤ کا ان کے اردگرد کے ماحول سے کیا تعلق ہے۔

ان کا مشاہدہ یہ تھا کہ دماغ بالغ ہونے کے لیے بچپن سے مختلف مراحل سے قدرتی طور پر گزرتا ہے۔ یہ مرحلے عموما تین سال کے فاصلے سے آتے ہیں۔ ہر مرحلے کے دوران دماغ مختلف چیزوں کے بارے میں سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ۔

ہر مرحلے کے آخرمیں د ماغ ایک نئی منزل پر پہنچتا ہے، جسے پلین آف ڈویلپمنٹ کہتے ہیں ۔ ہر منزل کو الگ نام سے جانا جاتا ہے ۔ پیدائش سے6 سال کی عمرکو طفلی منزل کہتے ہیں، اس کے بعد 6 سے12 بارہ سال کی عمر کو بچپن، 12 سے 18 سال کی عمر کو لڑکپن اور 18 سے 24 سال کی عمر کو جوانی کی منزل کے برابرمانا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر منزل پر بچے کو اس کی ضرورت کے مطابق ماحول ملنا چاہیے۔ جس کے ذریعے بچے کی بہترین ذہنی نشونما ممکن ہوسکتی ہے۔

نظام تعلیم سے بغاوت ؟

اس کے نتیجے میں مونٹیسوری نے1907 میں اپنے نظام تعلیم کے مطابق پہلا مونٹیسوری اسکول روم میں بنایا، جس میں زور اس بات پر تھا کہ بچے ک۔ا ماحول اس کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہئے

۔ لیکن یہ نظام اس قدر مقبول ہوا کہ آج دنیا بھر میں ہزاروں بچے اس طریقے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

Association Montessori Internationale

کی ویب سائٹ پر جائیں تو آپ کو ایسا کافی مفت مواد ملے گا جو آپ گھر میں اور سکول میں بخوبی استعمال کر سکتے ہیں۔( نام پر کلک کرنے سے آپ ان کی ویب سائٹ پر براہ راست جاسکتے ہیں)۔

سوچا کہ جن چیزوں کی وجہ سے مجھے مونٹسری پسند آیا ا،س کے بارے میں کچھ مزید تفصیل بھی بیان کر دوں۔ شاید آپ کوبھی اس میں سے کچھ چیزوں پر غور کرنے کا فائدہ محسوس ہو۔ چلئے شروع کریں۔

حرکت کرنے کی مکمل آزادی

بچوں کے کمرے میں اتنی جگہ ہونی چاہیے کہ وہ آسانی سے ادھر سے ادھر مرضی سے جا سکیں ۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بچوں کا بستر زمین سے قریب ہو۔اس طرح وہ گرنے سے محفوظ بھی رہتے ہیں اور اپنی مرضی سے اتر کرجب چاہے کھیل سکتے ہیں۔ انکے کمرے میں موجود چیزوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کھیلنا سیکھیں۔

اپنے سے بڑی عمر کے بچوں سے سیکھنا

عام طور پر کلاس میں ایک ہی عمر کے بچوں کو ایک ساتھ نہیں رکھا جاتا بلکہ چھوٹے اور بڑے عمر کے بچے ایک ساتھ کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ یہ عموماً تین سال کے فرق سے کیا جاتا ہے ۔ چھوٹے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ ایسے انہیں چھوٹی عمر سے یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ مل کر کیسے کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے سے مدد کیسے مانگتے ہیں۔

سیکھنے کے تجربے کی اہمیت کو سمجھیں

اکثر بچے کافی دیر تک ایک ہی عمل کو بار بار دہرا رہے ہوتے ہیں۔ یہ انکے دماغ کی تربیت کے لئے اہم سمجھا جاتا ہے۔ بجائے کہ بچے کی یکسوئی کو ہر چند منٹ بعد خراب کیا جائے، وہ جب تک اپنے کام سے مطمئن نہیں ہوتا، اسے کھیلنے کی اجازت ہوتی ہے۔

روز مرہ زندگی کے کام کاج کی اہمیت

یہ بات مجھے بہت اچھی لگی۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو اپنے کام خود کرنے کا کس قدر شوق ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہم باآسانی اپنے روز مرہ کے کام کاج کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے بارے میں آئندہ ایک مزید پوسٹ میں بات کروں گی۔

18 ماہ کی کم عمر سے ہی بچوں کی بنیادی صلاحیتوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ انہیں میز پر کھانے کے برتن ترتیب سے رکھنا سکھایا جاتا ہے، ساتھ ہی پانی کو گلاس میں انڈیلنا اور اپنے لئے ہلکھا پھلکا کھانا خود تیار کرنا بھی سکھایا جاتا ہے۔ کھانے کے بعد برتن اٹھا کر انہیں دھو کر صحیح جگہ واپس بھی بچے خود رکھتے ہیں۔

محسوس کرنے کی صلاحیت پر دھیان دینا

یہ اصول بیٹی کو اردو کے حروف سکھاتے وقت بھی بہت کام آیا۔ صرف کاغذ اور کتاب کی بجائے ایسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں کہ بچوں کو حروف کی شکلیں چھو کر اور محسوس کر کے سکھائی جائیں۔ اس طرح وہ بہت قدرتی طریقے سے سبق سیکھتے ہیں۔

میں نے کئی ایسی روز مرہ کی چیزیں اس طریقے سے استعمال کی ہیں، جو میں عنقریب آپ کو بتائوں گی۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے کے ارد گرد کا ماحول خوبصورت بھی ہو اور اس میں نظم وضبط بھی ہو۔

استاد کو مددگار کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔

ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہر بچے کو انفرادی توجہ دیں۔ بیک وقت سارے بچوں کو ایک ہی چیز پڑھانے کی بجائے، جس بچے کو جہاں مشکل بار بار پیش آرہی ہوتی ہے، اس میں اسکی مدد کی جاتی ہے۔اس طرح سے انکی خود سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ یہ جان کر مجھے بہت سکون ملا۔ بچوں کو کچھ نیا سکھانے کے لیے ہر چیز خود کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

یعنی کہ آپ بچوں کو زبردستی نہیں سکھا رہے بلکہ انہیں خود موقع دے رہے ہیں کہ وہ سوچ کر اپنے مسئلے کا حل نکالنا سیکھیں۔ مونٹیسوری کے مددگار بچوں کو اپنی سمجھ کے مطابق مسئلہ کا حل نکالنے کا موقع دے رہے ہوتے ہیں۔ جب ایسا لگے کہ بچہ باوجود کوشش کے اس مسئلے کو حل نہیں کر پا رہا، وہ اس کے مسئلہ کا حل سکھانے میں مدد کرتے ہیں۔

حدود میں رہتے ہوئے سیکھنے کی آزادی

روز بچے پہلے سے تیار شدہ شیلف پر سے خود اپنی پسند سے کام کرنے کے لیے نکالتے ہیں۔ مونٹیسوری کے تمام تر کھلونے ایک پزل کی طرح کام کرتے ہیں جہاں پر ایک ہی کام کی تکنیک کوپوری طرح سمجھنے کے لئے بار بار دہرانا ضروری ہوتا ہے۔ ہر پزل ایک ٹرے میں ترتیب سے رکھا ہوا ہوتا ہے تاکہ بچے کو اسے حل کرنے میں مزہ آئے اور اسکا دھیان نہ بٹے۔

بچے اپنا پزل اٹھا کر جہاں ان کا جی چاہے بیٹھتے ہیں۔ البتہ انہیں دوسرے بچوں کو چھیڑنے یا تنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ وہ خود اپنی پسند کے مطابق پزل کا انتخاب کرتے ہیں۔ شیلف پر کون سے کھلونے رکھے جائیں اس کا انتخاب بچوں کا ٹیچر خود کرتا ہے۔

ہر بچے کو انفرادی توجہ دینا

چونکہ مددگار ہر بچے کے ساتھ الگ الگ وقت گزارتا ہے، اس لیے وہ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت کے مطابق اس کے لئے شیلف تجویز کرتا ہے۔ زیادہ تر وقت بچے خود اپنا کام انہماک سے کر رہے ہوتے ہیں، جس کے لیے انہیں مددگار کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

بچوں کو بار بارنہ تو سراہا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کام نہ کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔ مونٹیسری کے مطابق، بچے قدرتی طور پر ایک کام کو بار بار کر کے اس میں مہارت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ لہذا مددگار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کے کام پر تنقید کرنے کی بجائے اس سے کام کے بارے میں سوال پوچھیں اور اس طرح اس کی رہنمائی کریں ۔ توجہ صرف کام کو ختم کرنے پر نہیں دی جاتی، بلکہ اس بات پر دھیان دیا جاتا ہے کہ بچہ کس عمل سے گزر کر نتیجے پر پہنچتا ہے۔ اس عمل کو اہمیت دی جاتی ہے۔

مکمل تربیت پر توجہ دینا۔

ایسا ماحول تخلیق کیا جاتا ہے جس میں بچے کی جسمانی، ذہنی، جذباتی اور سماجی تربیت پر مثبت اثر ہو۔ ایسے صرف حروف سیکھنے کے بجائے مکمل تربیت دی جاتی ہے۔ اس طرح عملی طور پر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا سکھایا جاتا ہے۔

مناسب ماحول مہیا کرنا

یہ سب کچھ جاننے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ بچوں کا کمرہ اور ارد گرد کا ماحول انکی تربیت کے لئے کس قدر اہم ہے۔ ماریہ مونٹیسوری بچوں کے اردو گرد خوبصورت اور معیاری کھلونے ترتیب سے رکھنے کو اہمیت دیتی تھیں۔ اس طرح بچے کا ذوق بڑھتا ہے۔ تمام تر پزل اور کھلونے دسترس میں رکھنے سے خودمختاری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ تمام کھلونے ایسے ہوں کہ لکڑی اور قدرتی چیزوں سے بنے ہوں۔ روشنی کا اچھا انتظام ہو۔

اس طرح مجھے کمرے میں چیزوں کو سجا نے کا صحیح طریقہ سمجھ میں آیا۔ کمرے سے ایسے کھلونے ہٹا دیں جو کہ صرف وقتی طور پر اپنی چمک دمک سے متاثر کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی خود اپنے کھلونے نکال کر بہت خوش ہوتی تھی اور اسکی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی میں بھی مطمئن تھی کہ بار بار روک ٹوک کی بجائے اسے خود سے سیکھنے میں زیادہ فائدہ ہے۔

ہو سکتا ہے آپ کو یہ کرنا مشکل لگے۔ لیکن مقصد یہ ہے کہ ہم بچوں کے سیکھنے کے عمل کو بھی اہمیت دیں۔ شردع میں چند ایک ایسے کھلونے بچے کی پہنچ میں رکھیں جن کووہ بار بار اتھانے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ پزل بہت مناسب ہیں۔ میں اسکے بارے میں مزید ایک اور پوسٹ میں بتائوںگی۔ اس لئے ہماری ای میل کی لسٹ کا حصہ بننا مت بھولیں۔

یہ ضرور بتائیں کہ آپ کو ان سب میں سے کون سی بات سب سے اچھی لکی؟ کیا ان میں سے کچھ چیزیں آپ خود آزما کر دیکھ چکے ہیں؟ نیچے ضرور تبصرہ کریں۔

Read this in: English

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے